Monday, June 1, 2009

delhi haj committee

دہلی حج کمیٹی خود کفیل بن جاتی اگر دہلی سرکا رسنجیدگی دکھاتیدہلی کابینہ میں منظوری کے باوجود ریاستی حج کمیٹی کے تحت نہیں کی گئی حج منزل، ایک مسلم کونسلرنے بھی رکاوٹ ڈالی تھی عامر سلیم خاننئی دہلی 26مارچ، سماج نیوزسروس: دہلی حج کمیٹی گذشتہ تقریبا دو برسوں سے تختہ مشق جفا بنی ہوئی ہے۔ اگر ایک طرف 29دسمبر 2006سے دہلی حج کمیٹی میں کوئی چیئرمین نہیں ہے تو دوسری طرف کمیٹی کے مفاد میں سامنے آنے والی ایک بہترین تجویز رکاوٹ کا شکار ہوکر رہ گئی۔ محکمہ سلم کے تحت آنیوالی حج منزل کو تقریبا ڈیڑھ سال قبل دہلی حج کمیٹی کے تحت دینے کی تجویز پر غور کیاگیا، لیکن اس پر عمل درآمد نہیں ہوسکا۔ معلومات کے مطابق محکمہ سلم ہرسال مرکز یا دہلی سرکار سے وہاں برسرکار اپنے ملازمین کیلئے تنخواہوں اور عمارت کی مرمت کے نام پر لاکھوں روپیوں کا مطالبہ کرتارہاہے۔ حالانکہ حج منزل کی اچھی خاصی آمدنی ہے ، لیکن محکمہ سلم کے مطابق وہ آمدنی ناکافی ہوتی ہے۔ ایک دفعہ جب اس طرح کا معاملہ سامنے آیا تو اس وقت کے شہری ترقیات کے ریاستی وزیر ڈاکٹر اشوک کمار والیا نے حج کمیٹی سے رابطہ کیا اور اس کے مستقل حل پر بات کی۔ اس وقت دہلی حج کمیٹی کے چیئرمین عبدالسمیع سلمانی تھے۔ مسٹر سلمانی نے ڈاکٹروالیاسے کہاتھاکہ اگر حج منزل کمیٹی کو دیدی جائے تو کمیٹی اس عمارت سے کم ازکم اتنی آمدنی ضرور کرلےگی کہ عمارت کے انتظام وانصرام کا مکمل بندوبست ہوجائے گا اور کمیٹی کے اخراجات بھی اس سے تقریبا پورے ہوجائیں گے۔واضح رہے کہ حج منزل میں محکمہ سلم کی جانب سے 4چوکیدرا، 3سویپر، بکنگ کی دیکھ بھال کیلئے ایک کانٹریکٹر، ایک الیکٹریشین اور ایک ہیلپر مقرر ہے۔ یہاں ہرماہ تقریبا چار پانچ شادیاں بک ہوجاتی ہیں۔ بڑا ہال 5ہزارروپئے، چھوٹا ہال 3ہزار روپئے، بیسمنٹ 8ہزار روپئے اور سیکورٹی 2ہزار روپئے لی جاتی ہے ۔ اس طرح ایک دفعہ بکنگ پر حج منزل سے 18ہزار روپئے کی آمدنی ہوتی ہے۔ دہلی کابینہ نے اس تجویز کو ہری جھنڈی دیدی تھی۔ اس کے بعد محکمہ سلم سے ہوتا ہوا یہ معاملہ کارپوریشن میں آیا۔ کارپوریشن نے بھی یہ تجویز منظور کرلی، لیکن اس کے فوری بعد کارپوریشن الیکشن کا وقت آن پہنچا۔ کانگریسی لیڈران کارپوریشن الیکشن میں مصروف ہوگئے اور بات وہیں رہ گئی جہاں سے چلی تھی۔ اس کے بعد نہ تو دہلی سرکار نے اس جانب توجہ کی اور نہ ہی اس پہلو پر غور وفکر کیا، بلکہ ریاستی سرکار نے توایک لمبی چھلانگ لگائی اور اپنے اس وعدے کو بھنانے میں مصروف ہوگئی کہ حج منزل دواریکا میں تعمیر کیاجائے گا، یہ اور بات ہے کہ مسلمانوں کا ایک بڑا طبقہ دواریکا میں حج منزل کی تعمیر کے حق میں نہیں ہے۔ ادھر باوثوق ذرائع کے مطابق حج منزل کو حج کمیٹی کے تحت کرنے پر ریاستی کابینہ اور کارپوریشن کی منظو ری کے بعد اس معاملہ کو لیکر ایک میٹنگ خود محکمہ سلم کی بھی ہوئی، جس میں ایک کونسلر نے رکاوٹ ڈالی۔ حالانکہ سب سے پہلے یہ تجویز سلم نے ہی دہلی سرکار اور کارپوریشن میں رکھی تھی، لیکن ان دونوں جگہوں سے پاس ہونے کے بعد بیچ میں کیاکھچڑی پکائی گئی اور کیوں پکائی گئی کہ یہ معاملہ کھٹائی میں پڑگیا اس پر کوئی بھی بولنے کے لئے تیار نہیں ہے۔ باوثوق ذرائع بتاتے ہیں کہ حج منزل کوحج کمیٹی کی تحویل میں دینے کی تجویز کو محکمہ سلم کی آخری میٹنگ میں اس وقت زبردست دھچکا لگا جب ایک مقامی مسلم کونسلرنے اس کی کھل کر مخالفت کی۔ معلومات کے مطابق اس کونسلر نے اس تجویز کی مخالفت صرف اس لئے کی کہ حج کمیٹی خوش حالی میں کیوں آئے۔بہرحال اب یہ تجویز دفن کردی گئی ہے ، کیونکہ حج منزل کو دواریکا میں تعمیر کرانے کو عملی جامہ پہنایاجارہا ہے اور اس سلسلہ میں دہلی سرکار ڈی ڈی اے کو پہلی فرصت میں 90 لاکھ روپئے زمین کا معاوضہ بھی دے چکی ہے۔ نامہ نگار کا رابطہ: 9868568465

Paswan

مسلمانوں کی معاشی بہتری کیلئے فوری اقدامات کی ضرو رت: پاسوانعامر سلیم خان نئی دہلی31 جنوری ، سماج نیو ز سروس:لوک جن شکتی پارٹی کے سپریمو ومرکزی رام ولاس پاسوان نے آج تسلیم کیا کہ مسلمانوں کی سماجی ومعاشی حالت انتہائی بری ہے، اس لئے اس وقت سب سے ضروری ہے کہ تمام اقلیتوں اور بالخصوص مسلمانوں کی سماجی معاشی بہتری کیلئے فوری اقدامات کئے جائیں۔سچر کمیٹی نے مسلمانوں کی ہرمیدان میں پسماندگی کی وضاحت کردی ہے، لیکن افسوس کہ اب تک اس تعلق سے کچھ نہیں کیاگیا۔انہوںنے بحیثیت پارٹی صدر مطالبہ کیاکہ آئین کی دفعات 15-4 اور 16-4کے تحت مسلمانوں کو سرکاری ملازمتوں اور اعلیٰ تعلیمی ادارو ں میں 10 فیصد ریزرویشن دیاجائے۔اسلام قبول کرنیوالی درج فہرست ذات اور برادریوں کو ریزرویشن کے وہی فوائد فراہم کئے جائیں جو آئین کی دفعہ341کے تحت ہندو¿ں، سکھوں اور بدھوں کو حاصل ہیں۔ مسٹر پاسوان نے زور دیکر کہاکہ مسلمانوں کو بیک ورڈ سے نکال کر انہیں شیڈولڈ کاسٹ کادرجہ دیاجائے۔ ایک سوال پر ان کا کہناتھا کہ یہ بڑی افسوس کی بات ہے کہ ایک برادری کے لوگ جو ہندو ہوں انہیں فوائد حاصل ہوں اور اسی برادری کے مسلمان وعیسائی اس فائدہ سے محروم رہیں۔ مسٹر پاسوان نے رنگناتھ مشرا کمیشن کی رپورٹ کے تعلق سے کہا کہ آئندہ 12سے 26 فروری تک چلنے والے پارلیمنٹ اجلاس میں بحث کیلئے پیش کی جائے، تاکہ اس پر کم از کم قومی سطح پر بات چیت ہوسکے۔ انہوںنے پارٹی کے مطالبہ میں یہ بھی شامل کیا کہ اقلیتی تعلیمی اداروں کے قیام اور انہیں چلانے کیلئے دفعہ 30 کے تحت پارلیمنٹ میں ایک جامع بل پیش کیاجانا چاہئے اور اس میں یہ واضح کیاجائے کہ اقلیتیں اپنے قائم کردہ اداروں میں اپنے طور پر اسٹاف مقرر کرسکتے ہیں اور انہیں منظوری کے ساتھ گرانڈ بھی فراہم کرایاجائے گا ۔ اس موقع پر ایک سوال پر مسٹر پاسوان کا کہنا تھا کہ وہ کلیان سنگھ کے بھاجپا چھوڑنے پر خوش ہیں ، کیونکہ اس سے بھاجپا کمزور ہوگی۔انہوںنے شری رام سینا کے ذریعہ گذشتہ دنوں کرناٹک میں لڑکیوں پر ہوئے حملے کو رام سینا کی غنڈہ گردی سے تعبیر کیا۔ کانگریس کے قومی سطح پر تال میل نہ کرنے کے فیصلہ پر انہوں نے کوئی ناراضگی نہیں جتائی اور کہا کہ اگر بہار میں سمجھوتہ ہوتا ہے تو ان کی پارٹی اعلان کردہ 16 لوک سبھا سیٹوں پر انتخاب لڑیگی ورنہ اس کے امیدوار 40 سیٹوں پر زور آزمائی کریں گے۔